اردوکےکلاسیکی ادب اورعلوم انسانی پر تالیف وتراجم کاادارہ
Free Call 04299200856

آر، یو، آر

165 

  • یہ ڈراما کیریل چپیک کی تحریر ہے جو پہلی بار اپریل 1923ء میں سینٹ مارٹنز تھیٹر میں پیش کیا گیا تھا۔
  • پطرس بخاری نے بطور پروڈیوسر یہ ڈراما 1932ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کی ڈرامیٹک کلب کے تحت کالج کی سٹیج پر پیش کیا۔
  • یہ ڈراما ایک کارخانے کی پراڈکٹ کے بارے میں ہے جس میں مختلف قسم کے روبوٹ تیار ہوتے ہیں۔
کیٹاگری: Product ID: 2143

ڈسکرپشن

یہ ڈراما کیریل چپیک کی تحریر ہے۔ جن دنوں پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے استاد تھے۔ انھی دنوں سیّد امتیاز علی تاج نے پطرس بخاری کے ساتھ مل کر اسے انگریزی زبان سے اُردو میں ترجمہ کیا۔ یہ ڈراما پہلی بار اپریل 1923ء میں سینٹ مارٹنز تھیٹر میں پیش کیا گیا تھا۔ 1932ء میں یہ ڈراما گورنمنٹ کالج لاہور کی ڈرامیٹک کلب نے کالج کی سٹیج پر پیش کیا۔ پطرس بخاری ہی اس کے پروڈیوسر تھے۔ گورنمنٹ کالج ڈرامیٹک کلب کے ڈراموں میں زنانہ کردار لڑکے ہی ادا کرتے تھے۔ بریش چندر ٹھکرال نے اس ڈرامے میں ہیلینا کا یادگار کردار ادا کیا تھا۔ اس ڈرمے میں سیّد امتیاز علی تاج نے ہیری ڈومین کا کردار ادا کیا تھا جو راسم کے یونیورسل روبوٹوں کے کارخانے کا جنرل مینیجر تھا۔ جبکہ الکوسٹ، آر یو آر کے کارخانے کے کلرک کا کردار پطرس بخاری نے ادا کیا تھا۔ یہ ڈراما ایک کارخانے کی پراڈکٹ کے بارے میں ہے جس میں مختلف قسم کے روبوٹ تیار ہوتے ہیں۔ اس کھیل کی کہانی انسانی غور و فکر کے نتیجے میں اُبھرنے والی اس سوچ کے گرد گھومتی ہے کہ کروڑوں سال پرانی دُنیائے موجود میں میکانکی عمل کے ذریعے مصنوعی انسان (روبوٹ) تخلیق کیے جائیں جو غم اور خوشی کے احساس سے عاری ہوں، مگر انسانوں کی طرح کام کاج اور مزدوری کریں۔ ڈرامے کا آغاز روبوٹ بنانے والی ایک فیکٹری کے کنٹرول آفس سے ہوتا ہے۔ مکالموں کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ روبوٹ دھڑا دھڑ فروخت ہو رہے ہیں۔ پھر آخرکار یہ روبوٹ دُنیا میں انسانوں کے خلاف بغاوت کر دیتے ہیں۔ ان کے اندر بھی انسانوں والے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ جنگ، نفرت، حقارت، توڑ پھوڑ، غارت گری۔ ان کا اعلان ہے کہ دُنیا میں موجود تمام انسانوں کو ختم کر دیں۔ بس مشینیں، ریل اور کارخانوں کو بچا لیں۔ واقعات اور سانحات کے ذکر سے قاری کے اندر ایک تجسس پیدا ہوتا ہے۔ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ بائبل کی چند سطور پر یہ ڈراما اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت علامتی ڈراما ہے، جس میں علامتیں بہت واضح ہیں۔ خاص طور پر اس دور میں جب یہ ڈراما لکھا گیا اس عہد کا منظرنامہ فوراً قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔ اس ڈرامے کے دونوں مترجم اپنے عہد کے بڑے نثرنگار اور ڈراما نگار تھے۔ اس میں لکھے گئے مکالمے معیاری ہیں۔ ڈراما کے تین ایکٹ کا ترجمہ سیّد امتیاز علی تاج کے پاس محفوظ رہ گیا۔ اس کا پہلا ایڈیشن مجلس ترقی ادب سے خطِ نسخ میں شائع ہوا، پھر دوسرا ایڈیشن خطِ نستعلیق میں مجلس ترقی ادب لاہور کے زیرِ اہتمام ہی شائع کیا گیا ہے۔

اضافی معلومات

مصنف

مترجم

سیّد امتیاز علی تاج, طرس بخاری