’’جوہرِ اخلاق‘‘ دراصل ڈھائی ہزار سال قبل کے مشہور یونانی نصیحت آموز تماثیل لکھنے والے ایسپ (Aesopus) یا (Aesop) کی حکایات کا اُردو ترجمہ ہے۔ البتہ یہ معلوم نہیں ہے یہ ترجمہ براہِ راست یونانی سے یا انگریزی کے توسط سے کیا گیا ہے۔ انگریزی تراجم میں سو سے زیادہ حکایات ہیں جبکہ جیمز فرانسس کارکرن نے صرف پچاس حکایات کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ انگریزی کے تراجم میں ہر حکایت کے آخرمیں ’’نتیجہ‘‘ یا "Moral” نثر میں دیا ہوا ہے لیکن کارکرن نے اس کی بجائے ہر حکایت کے اختتام پر ’’حاصل‘‘ کے عنوان سے دو سے چار شعر ہم وزن درج کیے ہیں۔ یہ شعر بھی کارکرن نے خود لکھے ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اُردو کا شاعر بھی تھا اور بے عیب شعر لکھتا تھا۔ اصل نسخے کی املا میں چند نامانوس یا آج کل کے رواج کے خلاف جو کلمات نظر آتے ہیں، مجلس ترقی ادب لاہور نے ان کی املا کی وہی شکل اختیارکی ہے جو آج کل رائج ہے اور جس سے اُردو قارئین اچھی طرح مانوس ہیں۔
کارکرن نہ صرف اُردو کا ماہر تھا بلکہ عربی، فارسی اور ہندی میں بھی وارد تھا اور نسلاً انگریز تھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اُس کی اُردو میں ان تمام زبانوں کی آمیزش کی جھلک نظر آتی ہے اور وہ محاورات، تراکیب، اسالیبِ بیان اور امثال کو کبھی کبھی اپنے نقطۂ نظر سے وضع کرتا ہے، لیکن نفسِ مضمون کو اس انداز سے نبھاتا ہے کہ اُس کی یہ روش گراں نہیں گزرتی۔ کارکرن کا یہ کتابچہ اس حقیقت کی طرف راہنمائی کرتا ہے کہ عصرِ حاضر میں اُردو کو عالمانہ اور معیاری سانچوں میں گانٹھ باندھ کر اس کی وسعت، ہردلعزیزی اور ہمہ گیری کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اُردو بنیادی طور پر ایک مرکب زبان ہے۔ ہر زبان کے الفاظ کو اپنے اندر سمونے اور جذب کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور مختلف زبانوں کے اسالیبِ بیان کو بھی اپناتی ہے اگر ہم نئے نئے محاورات، تراکیب، امثال اور اسالیب بیان کا اضافہ اُردو میں کرتے رہیں تو اس کا دامن وسیع تر ہوتا چلا جائے گا۔ کارکرن نے جوہرِ اخلاق میں کلمات، محاورات، تراکیب، امثال اور اسالیبِ بیان کو نہایت چابک دستی سے استعمال کیا ہے اور متن میں اس طرح سجایا ہے کہ حرف گیری کرنے کو جی نہیں چاہتا بلکہ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آج سے سو سوا سو سال پہلے اُردو کس قدر وسیع زبان تھی۔