اردوکےکلاسیکی ادب اورعلوم انسانی پر تالیف وتراجم کاادارہ
Free Call 04299200856

قصہ اگرگل

165 

  • قصہ اگرگل نوابی عہد کے لکھنو کی تہذیب و معاشرت کا ایک دل آویز مرقع ہے۔
  • نامعلوم مصنف نے اس دور کے رسم و رواج اور ثقافتی روایات کی ایسی تصویریں کھینچی ہیں قاری اس دور میں پہنچ جاتا ہے۔
  • کہانی ترتیب و تعمیر، اسلوبِ بیان اور طرزِ ادا میں عام چلن سے ہٹ کر صرف دلچسپ بنائی گئی ہے۔
کیٹاگری: Product ID: 2425

ڈسکرپشن

قصہ اگرگل نوابی عہد کے لکھنو کی تہذیب و معاشرت کا ایک دل آویز مرقع ہے۔ نامعلوم مصنف نے اس دور کے رسم و رواج اور ثقافتی روایات کی تصویریں کھینچتے وقت اپنے موِ قلم کا استعمال ایسی نزاکت اور فنی چابک دستی سے کیا ہے کہ ہر نقش اپنی جگہ بولتا ہوا اور ہر تفصیل زندگی کی تصویر نظر آتی ہے۔ چنانچہ آج کا قاری کم و بیش دو سو سال پہلے کے لکھنؤ میں پہنچ کر اپنے آپ کو ایک ایسے ماحول میں پاتا ہے جو ایک حد تک اُس کے لیے نامانوس سہی لیکن نہایت شائستہ، نفیس اور زندگی کی رنگینیوں سے بھرپور ہے اور قاری اس کی دلچسپیوں میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ کتاب کا اسلوبِ نگارش اگرچہ مسجع و مقفیٰ ہے کہ اس زمانے میں علم و فضل کا معیار تھا، لیکن اس کے باوجود عبارت میں روانی ہے اور پڑھنے والے کو کہیں رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ مصنف اپنے پُرتکلف انداز میں صفحے کے صفحے لکھتا چلا جاتا ہے اور تھکن کے آثار کہیں نمایاں نہیں ہوتے۔

اُردو کی دیگر داستانوں کے مقابلے میں قصّہ اگرگل کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہیرو کا کردار ایک پری پیکر نازنین ادا کرتی ہے۔ ’’اگر‘‘ ایک عورت ہے لیکن وہ ہمیشہ مردانہ لباس پہنتی ہے۔ اور داستان کی اسٹیج پر اپنی اس روشنیِ طبع کی قیمت اسے یوں ادا کرنی پڑتی ہے کہ وہ بھی زندگی کے وہ تمام نشیب و فراز عبور کرتی ہے جو اُردو داستانوں میں ہیرو کا مقدر ہیں۔ ہیروئن کی اس دوہری شخصیت کو نبھانے کے لیے مصنف کو غیرمعمولی فنی کاوش اور دقتِ نظر سے کام لینا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قصہ اگرگل اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود قصہ گوئی کے اس بنیادی منصب و مقصد کو پورا کرتا ہے کہ وہ پڑھنے والے کے لیے دلچسپ ہے۔ کہانی کی ترتیب و تعمیر میں، اور اسلوبِ بیان اور طرزِ ادا کی خصوصیتوں میں، زمانے کی عام روشوں سے ہٹتے ہوئے صرف دلچسپی کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے، یہی اس کی بقا کا موجب ہے۔

اضافی معلومات

مرتب

خلیل الرحمن دائودی