غلام ہمدانی نام، مصحفیؔ تخلص تھا۔ اکثر تذکرہ نویسوں کے نزدیک اُن کی جائے پیدائش امروہہ ہے لیکن کچھ کے نزدیک وہ دہلی کے قریب اکبر پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن بہرحال امروہہ میں گزرا۔ مصحفی کے آباو اجداد خوشحال تھے لیکن زوالِ سلطنت کے ساتھ مفلسی و ناداری نے آن گھیرا۔ مصحفی کی ساری زندگی معاشی تنگی میں گزری اور روزگار کی فکر ان کو کئی جگہ مثلا دہلی، آنولہ، ٹانڈے اور لکھنؤ وغیرہ بھٹکاتی رہی۔ جہاں انہوں نے مختلف اہل علم کی صحبت سے فائدہ اٹھایا۔ مصحفی میں علمی قابلیت زیادہ نہیں تھی لیکن طبیعت موزوں پائی تھی۔ اور شاعری کے ذریعہ اپنا کوئی مقام بنانا چاہتے تھے۔ مصحفیؔ میرؔ اور سوداؔ کے بعد خود کو سب سے بڑا شاعر سمجھتے تھے اور اپنی استادی کا سکہ جمانا ان کی عادت تھی۔ مصحفیؔ کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کا اپنا کوئی مخصوص رنگ نہیں۔ پھر بھی وہ اپنے پیچھے شاعری کا وہ سرمایہ چھوڑ گئے، جو ان کی ابدی زندگی کا ضامن ہے۔ مصحفی اُردو اور فارسی کے گیارہ دواوین، کئی نثری رسائل اور شعرائے اُردو و فارسی کے تین تذکروں کے مصنف ہیں۔
لکھنؤ کے شعری دبستان میں مصحفی کا شمار صفِ اوّل کے اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ان کا ضخیم کلیات شائع ہونے کی نوبت اب تک نہ آئی تھی۔ مصحفی کا یہ اُردو دیوان مختلف نسخوں سے مقابلہ کر کے مرتب کیا گیا ہے۔ لیکن رامپوری لائبریری کے قدیم نسخے باقی تمام پر قابلِ ترجیح تھے، اسی لیے انھیں کو متن کی اساس قرار دیا گیا ہے۔ دواوین کے جو نسخے دریافت ہو سکے یا جن تک رسائی ممکن تھی، ان سے مقابلہ کر کے اختلافِ نسخ حاشیے میں درج کر دیا گیا ہے۔ اختلافِ نسخ کے علاوہ نامانوس الفاظ کی فرہنگ بھی جا بہ جا شامل کر دی گئی ہے۔ یہ دیوان غزلیات، رباعیات، سلام و تراویح اور مثنویات پر مشتمل ہیں۔ ان دواوین کے خطی نسخہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ اور کتاب خانہ انجمن ترقی اُردو علی گڑھ میں موجود ہیں۔ کلیاتِ مصحفی کی جلد نہم ان کے قصائد پر مشتمل ہے۔ مصحفی نے جتنے قصیدے کہے ان کو اُنھوں نے اپنے دواوین میں شامل نہیں کیا بلکہ الگ رکھتے رہے۔ مقصد یہ رہا ہوگا کہ ایک علیحدہ دیوان ترتیب پا جائے۔ یہ جلد ان کی منشا کے مطابق قصائد پر مشتمل ہے۔