اردوکےکلاسیکی ادب اورعلوم انسانی پر تالیف وتراجم کاادارہ
Free Call 04299200856

دیوانِ صبا

110 

  • میر وزیر علی صبا کی شاعری ان کے زمانے کی لکھنوی شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔
  • صبا نے آتش کا رنگِ تغزل پسند کیا اور آتش کے شاگردوں میں خوب نام پیدا کیا، خود بھی استاد ہوئے۔
  • صبا کو درجۂ دوم کے شاگردوں میں شمار کرنا، اُس عظیم فنکار کے ساتھ کھلی ناانصافی ہوگی۔
کیٹاگری: Product ID: 2611

ڈسکرپشن

میر وزیر علی نام اور صبا تخلص تھا۔ میر بندہ علی کے بیٹے تھے۔ اُن کے ماموں میر اشرف علی نے ان کو اپنا متنبیٰ قرار دیا تھا۔ لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور یہیں ان کی نشوونما ہوئی۔ اُس زمانے میں علومِ قدیمہ کا زور شور تھا۔ عربی صرف و نحو اور منطق کے ساتھ ساتھ دیگر علومِ قدیمہ جیسے فنِ طب اور علمِ کلام کا درس لینا شریف زادوں کا شیوہ اور امیر زادوں کا لازمی شمار تھا۔ میر وزیر علی صبا نے ایسے ہی ماحول میں آنکھیں کھولیں اور ایک اچھے شریف زادے کی طرح فارسی کی اعلیٰ اور عربی کی بقدر ضرورت تعلیم حاصل کی۔ ذرا ہوش سنبھالا تو ہر طرف شعر و سخن کی محفلیں آراستہ تھیں۔ شاعرانہ مزاج کے باعث شعرگوئی کی طرف متوجہ ہوئے۔ صبا نے آتش کا رنگِ تغزل پسند کیا اور انھی کے شاگرد ہو گئے۔ اور بہت جلد شعر گوئی میں مشتاق ہو گئے۔ آتش کے شاگردوں میں خوب نام پیدا کیا اور بعد کو خود بھی استاد ہوئے۔

میر وزیر علی صبا کی شاعری ان کے زمانے کی لکھنوی شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔ لطفِ بیان اور اندازِ بیان لاجواب ہے۔ چھوٹی چھوٹی بحروں میں صبا نے سلاست اور روانی کے دریا بہائے ہیں۔ صبا کو زبان پر پوری پوری قدرت حاصل تھی۔ ان کے یہاں محاورات کا استعمال بہت ہی منتخب اور برمحل ہے۔ البتہ وہ رعایتِ لفظی سے پرہیز کرتے تھے، لیکن جہاں کہیں رعایتِ لفظی ہے وہاں تصنع اور مہملیت بھی صاف ظاہر ہے۔ صبا کے یہاں بہت سی غزلوں میں تو سلاست اور روانی اس درجہ ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ صبا کا خاص رنگ یہی ہے۔ بعض ناقدین کی رائے میں صبا کے کلام میں لکھنویت بہت زیادہ ہے اور اُن کے ہاں بامزہ اشعار کی کمی ہے اور ان کے کلام کا رنگ آتش کے مقابلے میں ناسخ سے قریب تر ہے۔ لیکن حقیقت میں صبا کے بہت سے اشعار ان عیبوں سے پاک ہیں اور ان کے اکثر اشعار آتش ہی کے رنگ میں ہیں۔ وہی خیال کی دلفریبی، وہی بیان کی رنگینی، وہی ندرتِ خیال، وہی سلاست، وہی قلب واردات اور وہی مضمون کی بلندی۔ اس کے باوجود صبا کے رنگ کو ناسخ کے رنگ سے قریب تر خیال کرنا، یا صبا کو درجۂ دوم کے شاگردوں میں شمار کرنا، اُس عظیم فنکار کے ساتھ کھلی ناانصافی ہوگی۔

اضافی معلومات

مصنف

مرتب

سید عابد علی عابد