سید امتیاز علی تاج کے علمی و ادبی کام پر ڈاکٹر سلیم ملک کو اختصاص حاصل ہے۔
انہوں نے پی ایچ ڈی کی سطح کا تحقیقی کام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی غیر مطبوعہ اور غیر مدون تحریروں کو اردو ادب کے قارئین تک پہنچانے کا کام بخوبی کیا ہے۔
زیرِ نظر کتاب ہمیں ان کی ادبی شخقیت کے ایک نئے زاویے سے روشناس کروا رہی ہے۔
یہ افسانے امتیاز علی تاج کی تحقیقی شخصیت کا ایک اور زاویہ ہمارے سامنے لا رہے ہیں۔ اس کتاب کی تقریب میں ڈاکٹر سلیم کا ساتھ محمد فیصل شہزاد نے دیا ہے۔
“جامع الحکایاتِ ہندی (سیرِ عشرت)” has been added to your cart. View cart
تاج کے افسانے
₨ 330
سید امتیاز علی تاج کے علمی و ادبی کام پر ڈاکٹر سلیم ملک کو اختصاص حاصل ہے۔
انہوں نے پی ایچ ڈی کی سطح کا تحقیقی کام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی غیر مطبوعہ اور غیر مدون تحریروں کو اردو ادب کے قارئین تک پہنچانے کا کام بخوبی کیا ہے۔
زیرِ نظر کتاب ہمیں ان کی ادبی شخقیت کے ایک نئے زاویے سے روشناس کروا رہی ہے۔
Category: داستانیں،حکایات اورقَصَص
Description
Shipping & Delivery
Related products
جوہرِ اخلاق (دلچسپ اخلاقی کہانیاں)
₨ 110
نیرنگِ خیال
₨ 330
خرد افروز (ترجمہ : عِیارِ دانش)
₨ 220
- پیش نظر فورٹ ولیم کالج کے شعبہ تالیف و ترجمہ میں حفیظ الدین احمد کی تالیف کردہ کتاب ’’خرد افروز‘‘ ہے۔
- ’’خردافروز‘‘ سنسکرت کی مشہور ’’پنچ تنتر‘‘ جس کا عربی ترجمہ ’’کلیہ دمنہ‘‘ کے نام سے ہوا، کا جزوی خلاصہ ہے۔
- اس میں جانوروں کی زبانی آدابِ معاشرت، تدبیرِ منزل اور دنیا میں اچھے سے زندگی گزارنے کی قوانین بتائے گئے
آرایشِ محفل
₨ 275
مذہبِ عشق (قصہ گل بکاولی)
₨ 165
شریر کی کہانیاں
₨ 330
شریر کی کہانیاں'' بیتال پچیسی مظہر علی ولا کی تصنیف ہے اور اس کی مرتبہ گوہر نوشاہی ہیں۔''
اس میں ٢٥ کہانیاں شامل ہیں۔
جو ایک بھوت پریت (بیتال) ایک راجہ (بکر ماجیت) کے درمیان مکالمے سے جنم لیتی ہیں۔
ان کہانیوں کی ایک فلسفیانہ حیثیت بھی ہے۔
١٨٠٣ میں فروٹ ولیم کالج کلکتہ کے اردو نصاب کے لیے نامور ادیب اور شاعر مظہر علی ولا نے سنسکرت سے آسان اردو میں ڈھالا۔
صفحات کی تعداد ایک سو چھیالیس ہے
ریاض دلربا
₨ 165
توتا کہانی
₨ 330
'توتا کہانی' کے مصنف حیدر بخش حیدری ہیں۔
توتا کہانی ہندی الاصل قصہ ہے۔
اس کی بنیاد سنسکرت کی کتاب 'شک سپ تتی' ہے۔
اس کے معنی ہیں طوطے کی کہی ہوئی ستر کہانیاں۔
کہا جاتا ہے کہ ١٢٠٠ بکرمی سے پہلے کسی زمانے میں لکھی گئی تھی۔ اس کا فارسی ترجمہ عہدِ مغلیہ سے پہلے ہوا۔
یہ کتاب ایک سو اکہتر صفحات پر مشتمل ہے