مرزا رفیع نام، پیدائش مابین 1706ء و 1708ء، بزرگوں کا پیشہ سپہ گری تھا۔ باپ سبیل تجارت ہندوستان وارد ہوئے تھے۔ سوداؔ پہلے سلیمان علی خاں و داؤد، بعد کو شاہ حاتمؔ کے شاگرد ہوئے۔ خان آرزو کی صحبت سے بھی فائدے حاصل کیے۔ خصوصاً اُردو میں شعر گوئی انہیں کے مشورے سے شروع کی۔ میرزا محمد رفیع سودا اپنے زمانے میں اُردو کے عظیم ترین شاعر سمجھے جاتے تھے۔ انھیں اب بھی اُردو نظم میں قصیدہ گو اور ہجو نگار کی حیثیت سے بہت اونچا مقام دیا جاتا ہے اور غزل گو کے طور پر بھی ان کا شمار بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔ سودا کی شاعری کے زورِ بیان، شان و شکوہ، بندش کی چستی اور مضامین و موضوعات کے تنوع کا ہر کسی نے اعتراف کیا ہے۔ سودا کا کلام پہلی بار 1810ء میں بطور انتخاب طبع ہوا اور اس کے بعد کئی دفعہ انتخاب اور کلیات کی شکل میں چھپ چکا ہے۔ لیکن کسی اشاعت میں بھی ان کے کلام کا صحیح اور قابلِ اعتبار متن نہیں ملتا۔ ایک تو ان اشاعتوں میں سودا کے بعض شاگردوں اور معاصرین کا کلام الحاقی طور پر شامل ہو گیا ہے اور دوسرے مختلف نوعیت کی غلطیوں نے انھیں پایۂ اعتبار سے گرا دیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ زیرِ نظر نسخے میں کلامِ سودا کا معتبر متن تیار ہو جائے جو الحاقی کلام سے پاک ہو اور ہر ممکن حد تک سودا کے اپنے لکھے ہوئے متن کے مطابق ہو۔ جو قرأتیں معتبر سمجھی گئی ہیں، انھیں متن میں جگہ دی گئی ہے اور اختلافِ نسخ پاورق میں ظاہر کر دیا گیا ہے۔ جہاں جہاں ممکن ہو سکا ہے، پاورق میں سند کے ساتھ یہ تصریح بھی کر دی گئی ہے کہ کون سی صنفِ سخن کس وقت (یا کس وقت سے پہلے) لکھی گئی تھی۔
کلیاتِ سودا کی یہ تیسری جلد ہے، جسے ڈاکٹر محمد شمس الدین صدیقی نے اُنیس مستند (اور کم مستند) نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے، یہ جلد مثنویات پر مشتمل ہے۔ فاضل مرتب نے ان مثنویات کو ان کے درجۂ استناد کے لحاظ سے کئی حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ ایسے قصائد پر مشتمل ہے جو یقینی طور پر سودا کے ہیں، باقی حصوں کی حیثیت کم مستند ہے۔ ہر حصے کے شروع میں مرتّب نے ایک تشریحی نوٹ دے دیا ہے۔ اس علمی احتیاط کو شائقینِ ادب نے خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔