ادبی تاریخ میں ایک ایسا زمانہ گزرا جس میں اُردو ڈراما قارئینِ ادب کی توجہ سے یکسر محروم رہا۔ اس دوران ڈراما صرف ناٹک کی حیثیت سے دیکھا اور سنا جاتا تھا، ادب کی حیثیت کی پڑھا نہیں جاتا تھا۔ ساٹھ ستر برس کے اس دور میں پارسی تھیٹریکل کمپنیوں کے ’’کھیل‘‘ مقبولِ عام تھے۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرانے ناٹک عہدِ حاضر کے قارئین کے لیے نایاب ہو کر رہ گئے ہیں۔ سیّد امتیاز علی تاج نے ڈرامے کی روایت سے تعلق کی بنا پر تاریخِ ادب کے اس خلا کو پُر کرنے کا تہیہ کر لیا اور ایک جامع منصوبے کی داغ بیل ڈالی۔ اس منصوبے میں تقریباً ایک سو ڈراموں کی اشاعت مدنظر تھی جو تیس جلدوں میں تقسیم کیے گئے۔ مجوزہ تیس جلدوں میں سے پہلی چھ جلدیں جو اٹھارہ ڈراموں پر مشتمل تھیں، تاج صاحب کی زندگی میں شائع ہو گئیں۔ ایک اور جلد (جلد ہشتم) جس کی ترتیب اُنھوں نے مکمل کر دی تھی، ان کی وفات کے بعد چھپی، لیکن باقی جلدوں میں شامل ہونے والے ستر پچھتر ڈراموں پر نظرثانی اور تبصرہ و تحشیہ کا کام ابھی باقی تھا کہ سیّد امتیاز علی تاج کا رشتۂ حیات ناگہانی طور پر منقطع ہو گیا۔ اس سانحے کے بعد مجلس ترقی ادب نے فیصلہ کیا کہ مرحوم کے ہاتھوں جو کام شروع ہوا تھا وہ جاری رہنا چاہیے۔ چنانچہ باقی ماندہ جلدوں کو مطبع کے لیے تیار کرنے کا کام پروفیسر سیّد وقار عظیم کے سپرد کیا گیا۔ اُنھوں نے مجلس کی دعوت کو نہ صرف اُردو ادب کی خدمت بلکہ ایک مرحوم دوست کی خدمت سمجھ کر بطیّبِ خاطر قبول فرمایا۔ چنانچہ اس سلسلے کی جتنی بھی جلدیں شائع ہوئی، ان میں صرف چند ابتدائی جلدوں کی جزوی ترتیب یا جزوی تحشیہ سیّد امتیاز علی تاج مرحوم کر چکے تھے۔ ساتویں سے تیسویں جلد تک (بہ استثنائے جلد ہشتم) فراہم شدہ مسودات کی نظرثانی اور متن سے متعلق تعارف، تحشیے اور تبصرے کا تقریباً پورا کام پروفیسر سیّد وقار عظیم کی توجہ اور انہماک کا شرمندہ احسان ہے، البتہ ہر کتاب کے سرورق پر مرحوم کا نام اسی طرح موجود ہے جو ان کی زندگی میں ہوتا۔
اس جلد میں طالب بنارسی کے تین ڈرامے شامل کیے گئے ہیں جن کے نام یہ ہیں: ’’نگاہِ غفلت‘‘، ’’دلیر دل شیر‘‘ اور ’’راجا گوپی چند‘‘۔ ہر ڈرامے سے پہلے ڈرامے پر تبصرہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح کتاب کے آخر میں فرہنگ اور حواشی بھی دیئے گئے ہیں۔