اردوکےکلاسیکی ادب اورعلوم انسانی پر تالیف وتراجم کاادارہ
Free Call 04299200856

یورپ میں تحقیقی مطالعے

330 

  • اس کتاب میں ڈاکٹر افتخار حسین کے وہ مضامین شامل ہیں جو اُنھوں نے یورپ کے دورانِ قیام میں لکھے۔
  • افتخار حسین نامور محقق، مؤرخ، ناول نگار، ڈراما نویس، سول سرونٹ، مترجم اور استاد تھے۔
  • سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں مغربی علوم کا مطالعہ اہلِ مشرق کے لیے بہت ضروری ہے۔
کیٹاگری: Product ID: 2567

ڈسکرپشن

ڈاکٹر آغا افتخار حسین نامور محقق، مؤرخ، ناول نگار، ڈراما نویس، سول سرونٹ، مترجم اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے وزیٹنگ پروفیسر تھے۔ وہ 17 اپریل، 1921ء کو دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد آغا افتخار حسین انجینئر تھے اور ان کا تعلق ایران کی قزلباش فیملی سے تھا۔ آغا افتخار کو اوائل عمری ہی سے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ 1946ء میں ابھی وہ پچیس سال کے تھے کہ انہوں نے فلسفہ فرہنگ کے نام سے مغربی فلسفے کی مختصر تاریخ لکھی۔ اس کے بعد انہوں نے کئی کتابیں لکھیں۔ 1967ء میں ان کی کتاب یورپ میں تحقیقی مطالعے چھپی۔ ان کی یہ کتاب ان تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے جو انہوں نے اپنے قیام یورپ کے دوران میں لکھے تھے۔ آغا افتخار فرانسیسی ادب اور ثقافت سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ انقلاب فرانس ان کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ انقلاب فرانس کے لیے ذہنی فضا پیدا کرنے والے فلسفیوں اور دانشوروں دیدیرو، والٹیئر اور دالمبر کے وہ بہت بڑے مداح تھے۔ ان کے نزدیک فرانسیسی دانشوروں کی یہ جماعت دسویں صدی کے بغداد میں تشکیل پانے والی خفیہ جماعت اخوان الصفا سے متاثر تھے۔

اپنی کتاب ’’یورپ میں تحقیقی مطالعے‘‘ میں ان کے وہ مضامین شامل ہیں جو اُنھوں نے لندن، کیمبرج، روم، نیپلز اور زیادہ تر پیرس کے دورانِ قیام میں لکھے یا ان کا زیادہ تر مواد اس عرصے میں حاصل کیا۔ تحقیق اور مطالعے کے دوران میں بعض اوقات ایسے اہم مآخذ بھی اُن کے علم میں آئے یا ایسی معلومات حاصل ہوئیں جو دلچسپی کا باعث ہو سکتی تھیں، ان کو بھی اُنھوں نے مضامین کی شکل میں پیش کر دیا۔ مطالعہ و فکر کے دوران میں بعض ایسے تصورات اور نظریات بھی ذہن میں اُبھرے جن کے اظہار کا موقع انھیں وطن واپس آ کر ملا، ان کی جھلک بھی ان مضامین میں کہیں کہیں موجود ہے۔ یہ مضامین ’’افکار‘‘ کراچی، ’’اُردو نامہ‘‘ کراچی، ’’نگار‘‘ کراچی، اور ’’صحیفہ‘‘ لاہور میں شائع ہو چکے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں مغربی علوم کا مطالعہ اہلِ مشرق کے لیے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ نوآزاد اور پسماندہ اقوام کے لیے تیزی سے بدلتے ہوئے نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرنا اور صحیح بیرونی اثرات قبول کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اپنے تہذیبی سرمائے کو برقرار رکھنا اور اسے ترقی دینا۔ ان دونوں صورتوں میں سے اگر ایک کو دوسرے کی خاطر قربان کر دیا گیا تو یہ قومیں اسی تیز رفتاری کے ساتھ واماندہ، پسماندہ اور مفلوک الحال ہوتی چلی جائیں گی جس رفتار سے طاقتور قومیں ترقی کر رہی ہیں۔

اضافی معلومات

مصنف