اردوکےکلاسیکی ادب اورعلوم انسانی پر تالیف وتراجم کاادارہ
Free Call 04299200856

مقالاتِ سرسیّد(حصہ چہار دہم)

400 

  • مقالاتِ سرسیّد کے حصہ چہاردہم میں سرسیّد کے قرآنی قصص سے متعلق مضامین کو جمع کیا گیا ہے۔
  • اس جلد میں شامل مقالات سے سرسیّد کے طرزِ تحریر کے ساتھ ان کے مذہبی نظریات سے بھی واقفیت ملتی ہے۔
  • سرسیّد کے متعدد عظیم الشان کارناموں میں سے ان کی ادبی خدمات کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔
کیٹاگری: Product ID: 2551

ڈسکرپشن

سرسیّد احمد خان انیسویں صدی کی وہ عہد آفریں شخصیت تھے جن کی ہمہ گیری کے اثرات بیک وقت ادب، سیاست، معاشرت، تعلیم، مذہب اور صحافت پر پڑے۔ سرسیّد کے متعدد عظیم الشان کارناموں میں سے ان کی ادبی خدمات کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے سترہ برس کی عمر میں قلم سنبھالا اور وفات تک برابر لکھتے رہے۔ اس طویل عرصے میں انہوں نے مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں تصنیف اور تالیف کیں۔ دوسروں کی کتابیں تصحیح کے بعد شائع بھی کیں۔ مگر سرسید کی ادبی حیثیتوں میں سب سے بڑی اور سب سے نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی ہے۔ وہ اپنے دور کے سب سے بڑے اور سب سے اعلی مضمون نگار تھے۔ انہوں سے سینکڑوں مضامیں اور طویل مقالے بڑی تحقیق و تدقیق اور محنت و کاوش سے لکھے اور اپنے پیچھے ایک عظیم الشان ذخیرہ نادر مضامین اور بلند پایہ مقالات کا چھوڑ گئے۔ ان کے بیش بہا مقالات و مضامین لٹریچر کے لیے مایہ ناز اور عوام و خواص کے لیے بے حد مفید ہیں۔ ان سے معلومات میں اضافہ اور نظر میں وسعت پیدا ہوتی ہے، اور علم و ادب اور مذہب و تاریخ کے ہزاروں عقدے حل ہوتے ہیں۔ ان مقالات كی خوبی یہ ہے كہ ان میں علمی اور مدلل نثر اور انداز بیان کے علاوہ علمی حقائق بھی ہیں اور ادبی لطف بھی، سیاست بھی اور معاشرت بھی، اخلاق بھی، مزاح ہے تو طنز بھی ہے، درد ہے تو سوز بھی۔ دلچسپی، دلكشی كے ساتھ نصیحت اور سرزنش بھی موجود ہے۔ گویا سرسیّد كے مقالات ایك سدا بہار گلدستہ ہیں۔ جن میں رنگ برنگے ہر قسم كے پھول موجود ہیں۔ یہ مقالات عہد سرسیّد میں كئی رسائل اور خود سرسید کے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ میں شائع ہوچكے ہیں۔ محمد اسماعیل پانی پتی نے نہایت تلاش و جستجو کے بعد سرسیّد کے مضامین و مقالات کو کئی جلدوں میں موضوعات کے اعتبار سے ترتیب دے کر شائع کیا ہے۔ زیر نظر چودھویں جلد ہے جس میں قرانی قصص پر مشتمل مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کو پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں سرسیّد کی علمی شخصیت خوب نکھر کر سامنے آ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سرسیّد کے مذہبی نظریات سے بھی واقفیت ملتی ہے۔ ان مضامین کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ سرسیّد روایتی طرز کے مولوی نہیں تھے بلکہ ہر بات کو دلیل اور عقل سے پرکھ کر قبول کرتے تھے۔

اضافی معلومات

مصنف

مرتب

شیخ محمد اسماعیل پانی پتی