’’مضامینِ فراق‘‘ ناصر نذیر فراق کی متعدد عمدہ اور دلچسپ تحریروں کا مجموعہ ہے ۔ ناصر نذیر فراق کا شمار اُردو نثر کے چند صاحبِ اسلوب اربابِ فن میں ہوتا ہے۔ ان سے متعدد کتب یادگار ہیں۔ ’’مضامینِ فراق‘‘ بھی ان کی وہ تصنیفِ لطیف ہے جو اپنی جیتی جاگتی نثر کے باعث ناقابلِ فراموش ہے۔ اس مجموعے میں بعض تحریریں افسانوی نوعیت کی ہیں مگر دیر تک یاد رکھے جانے کے قابل ہیں۔ بعض مضامین میں فراق نے ظرافت کی جوت جگائی ہے۔ ظرافت کی یہ باتیں بڑی دلچسپ اور دل میں گھر کرنے والی ہیں۔ کہیں کہیں فراق نے رمزی اور اشاراتی پیرائے میں بڑی گہری باتیں کی ہیں۔ اُنھیں عورتوں کی بولی ٹھولی پر بھی بڑا عبور ہے اور اسے جابجا خوب نبھایا ہے۔ متعدد عمدہ، روشن، رمزی، کنایاتی، تشبیہی و استعاراتی پیرایوں سے مزین فراق کی یہ نثر دہلوی نثر کی نمائندہ نثر کہی جا سکتی ہے۔
ناصر نذیر فراق کے ہاتھ کے لکھے ہوئے مضامین جو مضامینِ فراق میں شامل ہیں تو دستیاب نہیں، البتہ مطبوعہ نسخے کے مضامین کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مضامین قلم برداشتہ لکھے گئے ہوں گے، جنہیں مصنف نے لکھنے کے بعد پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ لکھا اور چھپوانے کے لیے بھیج دیا، اور چھاپنے والوں نے بھی شاید بغیر پڑھے کاتبوں کے حوالے کر دیا۔ اس لحاظ سے ’’مضامینِ فراق‘‘ کو ناصر فراق کی نثر کا کوئی عمدہ نمونہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تحریر سے بے پروائی نمایاں ہے۔ نثر میں بعض مقامات پر اتنی بے پروائی برتی گئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ البتہ کتاب میں تحریر کا نہ سہی، تقریر کا انداز تو ہے۔ ’’مضامینِ فراق‘‘ کو محمد سلیم الرحمن نے قلیل مدت میں بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ متن کی تصحیح کر دی ہے، متن میں موجود مشکل عبارات و اشعار کی وضاحت کی ہے۔ علاوہ ازیں قارئین کے لیے مشکل الفاظ کا فرہنگ بڑی محنت سے ترتیب دیا ہے۔