غالب کے کلام اور اُن کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے مگر بیسویں صدی کے نصف اوّل میں انھی موضوعات پر پروفیسر حمید احمد خاں کے محققانہ اور ناقدانہ مقالات کو جو اہمیت اور شہرت حاصل ہوئی وہ حیرت انگیز تھی۔ دراصل پروفیسر صاحب نے عام اور مقبول روش سے ہٹ کر مسائل کی گہرائیوں اور وسعتوں کو سمیٹنا شروع کیا تھا اور اس ضمن میں بے پناہ محنت و کاوش کا مظاہرہ کیا تھا۔ غالب کے فکر و فن کے تجزیے اور ان کے حالاتِ حیات کے سلسلے میں ہر ممکن حد تک کھوج لگانے کی جو روش پروفیسر حمید احمد خاں نے اختیار کی تھی، وہ سراسر منفرد تھی۔ یہ درست ہے کہ ان مضامین کے بعد غالب کے کلام اور اُن کی زندگی کے بارے میں تحقیق کا سلسلہ پوری شد و مد سے جاری رہا اور اس ضمن میں پنڈت کالی داس گپتا رضا کے انکشافات بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں جنھوں نے غالب کی غزلوں وغیرہ کے مفاہیم سے متعلق بعض تنقیدی مقالات کو بے معنی بنا کر رکھ دیا، مگر پروفیسر حمید احمد خاں کے اسلوبِ تحقیق و تنقید پر اب تک کوئی حرف نہیں آیا اور ان کے یہ مضامین، جو ’’مرقعِ غالب‘‘ میں جمع ہیں، آج بھی غالب کی شاعری اور زندگی کا مستند ترین مرقع تسلیم کیے جاتے ہیں۔
غالب پر تنقیدی کام کا آغاز پروفیسر حمید احمد خاں نے 1930ء کے عشرے میں کیا تھا۔ اُن کی والدہ نے اس کتاب کا نام ’’مرقعِ غالب‘‘ تجویز کیا۔ پروفیسر صاحب کی اچانک رحلت کے بعد ’’مرقع غالب‘‘ کے سلسلے میں ان کے کاغذات دیکھے گئے اور ان کی اشاعت کے بارے میں غور کیا گیا۔ کتاب اب نو (۹) مضامین اور ضمیمہ جات پر مشتمل ہے۔ پہلے باب ’’غالب کی شخصیت‘‘ کے بعد اسی عنوان سے ایک مختصر مقالہ بھی شامل ہے۔ پانچواں باب ’’غالب کی شاعری کا پہلا دور‘‘ دوسرے آٹھ مضامین کے برعکس پہلے شائع نہیں ہوا اور اس کا مسودہ کچھ نامکمل ہے۔ ضمیموں میں پروفیسر حمید احمد خاں کی Chronology of Ghalib کا ترجمہ شامل ہے۔ غالب پر پروفیسر حمید احمد خاں کی دوسری تحریروں کی ایک فہرست ہے، البتہ تحریریں کتاب میں موجود نہیں ہیں۔