اردوکےکلاسیکی ادب اورعلوم انسانی پر تالیف وتراجم کاادارہ
Free Call 04299200856

یادگارِ غالب

600 

  • یادگارِ غالب معروف شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی مولانا الطاف حسین حالی کی تصنیف کردہ سوانح عمری ہے۔
  • غالب کے کلام کو عوام تک پہنچانے میں جو کردار ’’یادگار غالب‘‘ نے ادا کیا وہ اردو ادب میں یادگار رہے گا۔
  • ’’یادگارِ غالب‘‘ حالی کی ایک ایسی تصنیف ہے جو ہمیں غالب کی شخصیت اور شاعری، دونوں سے متعارف کراتی ہے۔
کیٹاگری: Product ID: 2643

ڈسکرپشن

یادگارِ غالب معروف شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی مولانا الطاف حسین حالی کی تصنیف کردہ سوانح عمری ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالی بیک وقت ایک عالم، مصلح، شاعر، نقاد، اور سوانح نگار تھے۔ حالی نے کمسنی سے ہی علما و فضلا کی صحبتوں سے استفادہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ دلی میں اس وقت فن کے باکمال موجود تھے۔ ذوق، غالب آزردہ، صہبائی عروس سخن کے گیسو سنوار رہے تھے۔ شعر و ادب کی محفلیں گرم رہتی تھیں حالی بھی ان محفلوںمیں شریک ہوتے تھے۔ یہ حالی کی بصیرت کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ انہوں نے غالب کے کلام کو غالب ہی سے سمجھنے کی کوشش کی۔ یہ نہ صرف غالب کی بلکہ اردو ادب کی بھی خوش نصیبی ہے کہ غالب کو حالی جیسا شاگرد ملا جو علم و ادب کاسچا شیدائی فن شعر کا مزاج داں اور بالغ نظر نقاد تھا۔ حالی نے اردو شاعری کو حیات نو بخشی۔غالب سے حالی کی ملاقات محض اتفاق تھی۔ اگرچہ غالب کے اور بھی شاگرد تھے جیسے مرزا ہر گوپال تفتہ، میر مہدی حسن مجروح وغیرہ لیکن غالب کے کلام پر ان کی حقیقی عظمت کا احساس عام کرنے ان کی مقبولیت میں اضافہ کرنے، ان کے کلام کو عوام تک پہنچانے میں جو کردار ’’یادگار غالب‘‘ نے ادا کیا وہ اردو ادب میں یادگار رہے گا۔ غالب کی حقیقی عظمت پر توجہ سب سے پہلے حالی نے کی۔

’’یادگار غالب‘‘ غالب کی اولین سوانح عمری ہے۔ سوانح عمری سے بڑھ کر یادگار تنقیدی کارنامہ بھی ہے۔ اس میں غالب کی زندگی اور شخصیت کی کامیاب تصویر کشی ہے۔ ان کی نثر نگاری اور شاعری کا جائزہ لیا گیا۔ سوانح کے اعتبار سے کسی قدر تشنہ ہے۔ کتاب کا صرف چوتھائی حصہ سوانح حیات سے متعلق ہے۔ انہوں نے حالات زندگی تفصیل سے پیش نہیں کی۔ حالی کے دل میں غالب کے لیے جو عقیدت و احترام کا جذبہ کارفرما تھا وہ غالب کی وفات کے بعد بھی برقرار رہا۔ حالی نے زیادہ زور غالب کے کمال فن کو ظاہر کرنے پر صرف کیا ہے۔ حالی کی ملاقات غالب سے اس وقت ہوئی جبکہ غالب کا عہد شباب گزر چکا تھا۔ چونکہ حالی نے غالب کی جوانی کارنامہ نہیں دیکھا تھا اس لیے ان کی ایام شباب کی کامیاب تصویر کشی نہ کرسکے۔ حالی نے غالب کی سیرت کے اہم نقوش کو ابھارا ہے اس کے ساتھ ان کی کمزوریوں کا بیان بھی کر دیا ہے۔ خانگی معلومات کو بھی پیش کیا ہے۔ حالی نے غالب کے قیام لکھنؤ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایام غدر میں غالب کو جن مصائب سے دوچار ہونا پڑا خصوصیت کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف کی موت کا ان کو جو صدمہ ہوا ان پر یادگار غالب میں روشنی ڈالی ہے ۔ عہد حاضر کی تحقیق نے یادگار غالب کے بہت سے واقعات کی تردید کی ہے۔ ان کی تحقیقی نا ہمواریوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یادگار غالب کے بیشتر بیانات تشنہ معلوم ہوتے ہیں۔ حالی ذاتی طور پر غالب سے قریب تھے۔ غالب کی رفاقت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ جتنی مستند سوانح عمری کی توقع حالی سے کی جاسکتی تھی وہ ’’یادگار غالب‘‘ سے پوری نہیں ہوتی۔ پھر بھی ’’یادگارِ غالب‘‘ حالی کی ایک ایسی تصنیف ہے جو ہمیں غالب کی شخصیت اور شاعری، دونوں سے متعارف کراتی ہے۔

اضافی معلومات

مصنف

مرتب

خلیل الرحمن دائودی