شیخ قیام الدین نام عرف محمد قائم ہے۔ قائمؔ تخلص، چاند پور ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔ اس زمانے میں دہلی میں میر تقی میر، میر دردؔ، سوداؔ وغیرہ جیسے باکمال استاد موجود تھے اور اردو شاعری شباب پر تھی۔ قائم کا مخصوص لہجہ رچا ہوا انداز ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قائم ایک بڑا اور قابلِ مطالعہ شاعر ہے لیکن اسے میرؔ و مرزاؔ کا ہم رتبہ کہنا ناانصافی ہے۔ ان کا کلام ہر صنف میں موجود ہے: غزل، رباعی، قطعہ، مثنوی، قصیدہ، ترکیب بند، تاریخ سب کچھ کہا ہے۔ ہجو کہنے اور فحش بکنے میں اپنے استاد سوداؔ سے کسی طور کم نہیں۔ متعدد مثنویاں لکھی ہیں جن میں قصے سلیقے سے نظم کیے ہیں۔ قصیدوں میں بھی زور پایا جاتا ہے۔ ایک تذکرہ ’’مخزن نکات‘‘ بھی لکھا جس میں ہر دور کے شعراء کا حال الگ الگ لکھا ہے اور مستند سمجھا جاتا ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں کی رائے میں قائم چاند پوری پختگیِ کلام، فنی مہارت، روانیِ طبیعت اور فضل و ہنر میں کہیں کہیں سودا پر سبقت لے جاتے ہیں۔
پرفیسر اقتدا حسن نے قائم چاند پوری (متوفی 1208ھ) کا کلیات، کلامِ قائم کے مختلف مآخذات کی مدد سے انتہائی عرق ریزی، دیانت اور مہارت سے ترتیب دیا ہے۔ سوانح قائم کا یہ خاکہ جو شعرا کے تذکروں، کتبِ تاریخ اور کلامِ قائم سے مرتب کیا گیا ہے، واقعیت کے زمرے میں آتا ہے، لیکن اس میں امکانی کوشش کی گئی ہے کہ حالات و واقعات حقیقت سے زیادہ قریب ہوں۔ اس نسخے کا متن ’’دیوانِ قائم‘‘ مخزونہ انڈیا آفس لائبریری کے مطابق ہے۔ دوسرے نسخوں سے جتنا زائد کلام ملا، اُسے مآخذ کے حوالے کے ساتھ متن یا حاشیۂ متن میں اور باقی کو ’’حواشی‘‘ میں درج کر دیا گیا ہے۔ قائم کے نسخوں میں ’’ضم‘‘ کے لیے بالعموم ’’واؤ‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’اون‘‘ کے بجائے ’’اُن‘‘، ’’اوس‘‘ کے بجائے ’’اُس‘‘، ’’اوڑ‘‘ کے بجائے ’’اُڑ‘‘ وغیرہ۔ ایسے تمام الفاظ کے لیے مروجہ املا استعمال کیا گیا ہے۔ ت، ٹ، ج، جھ (مثلا ’’مجکو‘‘ کے بجائے ’’مجھکو‘‘) دڈ، رڑ، ک، گ، ی، ء (مثلاً ’’قایم‘‘ کے بجائے ’’قائم‘‘) ی ے وغیرہ حروف کے درمیان امتیاز کیا گیا ہے۔ امالے کی رعایت برتی گئی ہے، نقطوں کے استعمال میں بے ترتیبی کا ازالہ کیا گیا ہے اور بالعموم مفرد املا برقرار رکھا گیا ہے۔ استثنیات سے قطع نظر حتیٰ الامکان اصل املا برقرار رکھا گیا ہے اور جہاں کہیں انحراف ضروری ہوا ہے وہاں حواشی میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔ ضخامت کے پیشِ نظر کلیاتِ قائم کو دو جلدوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ دوسری جلد رباعیات، مثنویات، قصائد، اور دیگر اصنافِ مختصر، فارسی کلام اور سلام و مراثی پر مشتمل ہے۔