یہ کتاب نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کی کلیات پر مشتمل ہے جو جہانگیر آباد کے جاگیردار، اردو فارسی کے باذوق شاعر اور نقاد تھے۔ انھوں نے الطاف حسین حالی کو مرزا غالب سے متعارف کروایا تھا۔ دہلی میں ایک بہت بڑی لائبریری ان کی ملکیت تھی جسے 1857ء میں باغیوں نے لوٹا اور آگ لگا دی تھی۔ انگریزوں نے بغاوت کی شبہ میں سات سال قید سنائی لیکن ہندوستان کے نام ور عالم نواب صدیق حسن خان کی سفارش سے ان کا ’’جرم‘‘ معاف ہو گیا اور پنشن مقرر ہوئی۔ محمد مصطفی خاں شیفتہؔ شعر گوئی اور سخن فہمی کا بڑا اعلی مذاق رکھتے تھے۔ گرمی اور لذت کے علاوہ ان کے کلام میں شکوہ الفاظ اور چستی ترکیب بھی پائی جاتی ہے۔ کلام میں بندشِ الفاظ اور ترکیب روش وار رعایت اسی طرح کی ہے جو غالب اور خاص کر مومنؔ میں پائی جاتی ہے۔ متانت، تہذیب اور سنجیدگی ان کے ہاں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ خود ان کے معاصر ان کے مذاقِ سخن کے معترف و مداح تھے۔ تصوف کے مضامین، پند و حکمت، مومنؔ کی سی نزاکت خیال اور ہلکی شوخی و ظرافت ان کے یہاں خاص چیز ہیں۔
شیفتہ کی اس کلیات میں کل 169 مطبوعہ غزلیں، 5 غیرمطبوعہ غزلیں، 6 رباعیات، ایک مثلث، ایک مخمس، ایک تضمین، 4 مثنویات، ایک نظم اور چند فردیات شامل ہیں۔ کلیات کے شروع ہونے سے پہلے کلب علی خاں فائق کا تحقیقی مقدمہ ہے۔ کلیات کے آغاز میں شیفتہ کا فارسی میں لکھا ہوا ’’دیباچۂ عنوان‘‘ ہے، جبکہ اس کے آخر میں ’’نثر خاتمہ‘‘ ہے۔ یہ کلیات نہ صرف اُردو ادب کے طالب علموں اور اساتذہ کے لیے بلکہ عام شائقین کے لیے بھی بہت مفید ہے۔