یہ کتاب انگریزی زبان میں کرسچن ڈبلیو ٹرول کی تصنیف کا اُردو ترجمہ ہے جو معروف محقق اور نامور نقاد قاضی افضال حسین کے نکتہ رس قلم کا کمال ہے۔ کتاب کے آغاز میں مترجم نے ترجمے کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مصنف سے کی گئی خواہش پر اُنھوں نے اس انگریزی کتاب کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ اس دوران ان سے ٹرول کا مسلسل رابطہ رہا۔ اس وضاحت سے مذکورہ کتاب کے ترجمے کے معیار کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ نقل بمطابق اصل ہے۔ تعارف کے عنوان سے کرسچین ڈبلیو ٹرول نے اس کتاب کے مآخذ اور انیسویں صدی میں پیدا ہونے والی اسلامی فکر کے مطالعے کے لیے سرسیّد کے افکار اور مسلم دینیات کی تعبیر نو کی اہمیت بھی بیان کی ہے۔ یہاں ضمناً ایک تلخ حقیقت کے تأسف اور ملال کا ذکر بھی بے محل نہ ہوگا۔
ٹرول نے اشاعتِ اوّل کے لیے پاکستان میں جن صاحب (محمد اکرام چغتائی) کو مسودہ بھیجا انھوں نے کتاب پر مترجم (قاضی افضال حسین) کے نام کے ساتھ اپنا نام بھی لکھ کر یہ تاثر دیا کہ یہ ترجمہ دو مترجموں نے کیا ہے۔ اپنے مضمون میں چغتائی صاحب نے جن اسقام کی درستی کا دعویٰ کیا ہے اس کا جوابِ دعویٰ بھی قاضی صاحب کے وضاحتی مضمون میں موجود ہے جس کا مطالعہ قاری کے علم میں اضافے کے ساتھ اسے پیشہ ورانہ بددیانتی سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ کتاب میں تعارف کے علاوہ سات ابواب ہیں۔ جن میں سرسیّد کے مذہبی عقائد اور سوانحی پس منظر اور مسلم دنیا کے مابعد تاریخی حالات سے استناد حاصل کیا گیا ہے اور سرسیّد احمد خاں کے نظریات اور خیالات کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں ضمائم بھی شامل ہیں۔ ان کا مطالعہ بھی قاری کےلیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔