اردوکےکلاسیکی ادب اورعلوم انسانی پر تالیف وتراجم کاادارہ
Free Call 04299200856

معاصرین اقبال کی نظر میں

550 

  • یہ کتاب اقبال کے تنقیدی رویے کی روشنی میں معاصرینِ اقبال کے بارے میں اقبال کی رائے پر مبنی ہے۔
  • ڈاکٹر محمد اقبال اُن مسیحا نفسوں میں تھے جن کے دم سے زندگی کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں۔
  • اقبال نے جس میں بھی کوئی جوہرِ قابل دیکھا، اس کو دل کھول کر سراہا۔
کیٹاگری: Product ID: 2566

ڈسکرپشن

اقبال ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ عالمِ انسانی کے مہرِ جہاں تاب، موجودہ دُنیا کے عظیم مفکر اور الہام نوا شاعر تھے۔ وہ اُن مسیحا نفسوں میں تھے جن کے دم سے زندگی کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں۔ ان کے حیات افروز پیغام نے دلوں کو گرمایا، روحوں کو تڑپایا، احساسِ کمتری کو مٹایا، حوصلوں میں اُبھار پیدا ہوا، خودی اور خودداری کے جذبے کو استحکام بخشا اور دماغوں میں رفعت و بلندی پیدا کی، یہاں تک کہ قوم کی سوئی ہوئی قسمت جاگ اُٹھی اور وہ جوشِ عمل سے سرشار ہو کر باوقار زندگی کی سرحد پر جا کھڑی ہوئی۔ ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیت تھے۔ ان کی وجۂ شہرت اردو اور فارسی میں شاعری ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔  علامہ اقبال کو دورِ جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

یہ کتاب اقبال کے تنقیدی رویے کی روشنی میں معاصرینِ اقبال کے بارے میں اقبال کی رائے پر مبنی ہے کہ اُنھوں نے اپنے معاصرین میں سے کس کس کے متعلق کیا کچھ کہا، کن اوصاف کی بنا پر کیا رائے قائم کی اور ان کی خوبیو ںکے اعتراف میں کتنی عالی ظرفی کا ثبوت دیا۔ اقبال نے جس میں بھی کوئی جوہرِ قابل دیکھا، اس کو دل کھول کر سراہا۔ جہاں تک اس کتاب کی ترتیب کا تعلق ہے، یہ تاریخ ہائے وفات کے لحاظ سے مرتب کی گئی ہے جو شخص پہلے فوت ہوا، وہ پہلے اور جو بعد میں فوت ہوا، وہ بعد میں رکھا گیا ہے۔ محمد عبداللہ قریشی نے اس کتاب میں پچاس کے قریب معاصرین اقبال پر اقبال کی آرا کو جمع کیا ہے جن میں امیر مینائی، داغ، آزاد، نیرنگ، شبلی، حالی، اکبر، جوہر، خواجہ نظامی، کیفی چریاکوٹی، سالک، شوکت تھانوی، جوش جیسی مشہور و معروف شخصیات شامل ہیں۔ اس کتاب کے بعد عبداللہ قریشی کا مزید معاصرین کے بارے میں علامہ اقبال کی آرا جمع کرنے کا ارادہ تھا۔ یہ کتاب تحقیق کے دیگر مردانِ میدان کو بھی دعوتِ تحقیق دیتی ہے کہ وہ بھی اقبال یا دوسری شخصیات کے حوالے سے اس کام کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

اضافی معلومات

مصنف