کنھیا لال ہندی کی لکھی ہوئی تاریخِ لاہور کا شمار اس موضوع پر لکھی گئی چند مصدقہ کتب میں ہوتا ہے۔ تاریخِ لاہور کا مصنف پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہونے کے ساتھ علمی و ادبی ذوق کا حامل بھی تھا۔ وہ 1850ء میں لاہور میں اسسٹنٹ انجینئر کے عہدے پر فائز ہوا اور ترقی کرتے کرتے یہیں سپرنٹنڈنٹ انجینئر درجہ اوّل کے عہدے سے سبکدوش ہوا۔ اپنی 35 سالہ ملازمت کے دوران اس نے تصنیف و تالیف کا کام جاری رکھا۔ ریاضی اور انجینئرنگ کی ایسی کتب لکھیں جو متعلقہ تعلیمی نصاب کا حصہ بن گئیں۔ تاریخ کے مطالعے کا ذوق اس میں لاہور کی تاریخی عمارات کی تزئین و آرائش کے دوران پیدا ہوا۔ جو آگے چل کر تاریخِ لاہور (اور تاریخِ پنجاب) لکھنے کا محرف بنا۔ کتاب کے پہلے پچاس صفحات مقدمہ کتاب اور پیش لفظ پر محیط ہیں۔ مرتب جناب کلب علی خاں فائق نے اپنے مقدمے میں کنھیا لال کے احوال و آثار کا مفصل ذکر کیا ہے۔ پیش لفظ کا آغاز کنھیا لال ہندی نے اپنی لکھی ہوئی حمد باری تعالیٰ سے کیا ہے۔ مقامات کے نوعیت کے حوالے سے کتاب چار حصوں اور دیگر فصول میں منقسم ہے۔ کنھیا لال نے لاہور کے مکانات و عمارات اور مقامات کے کوائف بیان کرتے ہوئے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور معلومات سے بخوبی استفادہ کیا ہے۔ مساجد، منادر، گرجا گھر، شوالوں، سمادھیوں اور دیگر عمارات کا ماہرِ تعمیرات کے طور پر مطالعہ پیش کیا ہے جس کی وجہ سے کنھیا لال کی تاریخ لاہور کو دیگر تواریخِ لاہور میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ کنھیا لال نے ایک فراخ دل اور غیرمتعصب مورخ کے طور پر دستیاب حقائق کے بیان میں دیانتداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ مذہبی مقامات سے وابستہ معلومات اور امتیازات و اعتقادات اور مذہبی رسوم کے بارے میں اس نے ناقد کے بجائے ایک دیانت دار راوی کے طور پر خامہ فرسائی کی ہے۔ آج سے ایک سو پینتیس سال پہلے لکھی گئی اس کتاب میں لکھی گئی اُردو زبان میں ہندی اور سنسکرت کے بجائے فارسی اور عربی زبانوں کے محاورے اور تراکیب و الفاظ کا استعمال لسانیات کے طالب علموں کے لیے اُردو زبان کی پیش رفت جاننے کا ذریعہ بھی ہے۔ کمپوٹرائزڈ کمپوزنگ کے دوران صحت متن اور املا کی اغلاط دور کر کے خاص طور پر رشید حسن خاں کی اُردو املا کے اُصولوں سے استفادہ کرتے ہوئے دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔ خاتمۃ الطبع کتاب کے آخر میں منظوم صورت میں دیا گیا ہے۔ سابقہ ایڈیشن کے پاورقی حواشی کے برعکس موجودہ ایڈیشن میں حواشی کتاب کے آخر میں دیئے گئے ہیں۔
تاریخِ لاہور
₨ 550
- کنھیا لال ہندی کی لکھی ہوئی تاریخِ لاہور کا شمار اس موضوع پر لکھی گئی چند مصدقہ کتب میں ہوتا ہے۔
- مصنف نے عمارات و مقامات بارے بتاتے ہوئے اپنے انجینئرنگ کے پیشہ سے بخوبی استفادہ کیا ہے۔
- مصنف نے مذہبی مقامات و معلومات بارے ناقد کے بجائے دیانت دار راوی کا کردار ادا کیا ہے۔
Category: تاریخ
Description
Additional information
مصنف | |
---|---|
مرتب |
کلب علی خاں فائق |
Shipping & Delivery
Related products
ایران جانِ پاکستان
₨ 715
مقدمہِ تاریخ ادبیاتِ عرب
₨ 330
'مقدمہِ تاریخ ادبیاتِ عرب' ہملٹن روسٹین گب کی تصنیف ہے جس کا اردو ترجمہ سید اولاد علی گیلانی نے کیا ہے۔
روسٹین گب 1895 میں اسکندریہ مصر میں پیدا ہوئے۔
وہ اسکاٹ لینڈ کے رہنے والے تھے اور کئی کتابوں کے مصنف اور مترجم ہیں۔
اس کتاب کا مطالعہ عربی زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کیلئے انتہائی مفید ہے۔
صفحات کی تعداد ایک سو ترانوے ہے۔
مجاہد شاعر منیر شکوہ آبادی
₨ 400
مجاہد شاعر منیر شکوہ آبادی" منیر شکوہ آبادی کا شمار انیسویں صدی کے ان باکمال شاعروں میں ہوتا ہے جن کی قوتِ ایجاد و اختراع اور قدرتِ زبان سے انکار ممکن نہیں۔"
میں ان کی سوانح، شخصیت، تصانیف، تلامذہ اور شاعرانہ مرتبے پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
'ضمیمہ' کے عنوان سے ان کا نادر اور غیر مطبوعہ کلام بھی اس کتاب میں موجود ہے۔
یہ کتاب ڈاکٹر توصیف تبسم نے مرتب کی ہے اور یہ تین سو نوے صفحات پر مشتمل ہے
رُودادیں (مجلسِ ترقیِ ادب:1950ء تا 2009ء)
₨ 1,100
تاریخِ پنجاب
₨ 330
تاریخ ایران (جلد اول)
₨ 550
فردوس بریں
₨ 600
مولانا عبدالحیم شرر اردو فکشن کی اس روایت کے بانیوں میں سے ہیں جسے اسلامی تاریخی ناول نگار کہا جاتا ہے۔ ان ناولوں میں فیکٹ اور فکشن، تاریخ اور تخیل کا امتزاج ہے۔ جو قابلِ توجہ ہے اور اردو ناول کے ارتقا کی ایک کڑی ہے۔ یقیناََ ''فردوس بریں'' کو عام طور پر شرر کا شہکار ناول گنا جاتا ہے۔ یہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ عبرت ناک بھی ہے۔۔
برصغیر کی موسیقی
₨ 220